صبح کے پرندے جب چہچہانے لگتے ہیں ...
ننھے ہاتھوں میں کٹورا نہیں دیکھا جاتا ...
لو جو گھر کا دیا نہیں دیتا ...
کسی سے اے دل ناداں جو پیار کرنا ہے ...
جو سوز محبت میں جلتے رہے ...
جو گفتگو سے قوم کا رہبر لگا مجھے ...
جب اس بزم میں ہم بلائے گئے ...
جب سے کوئی مرا ہم سفر ہو گیا ...
دلوں میں یوں تو لاکھوں غم نہاں ہیں ...
چاند ہو جس طرح ستاروں میں ...
یوں بھی کیا سونے میں تجھ کو تولتا ہے کوئی اور ...
تم کو جیون میں خسارا بھی تو ہو سکتا ہے ...
جب مری ماں کی دعاؤں کا اثر بولتا ہے ...
گلوں کو کرتے ہوئے جب کلام دیکھا تھا ...
گھٹن ہے اور عجب بے بسی ہوا میں ہے ...
پہنچے گا محبت کا یوں انجام کہاں تک ...
نظر کے زاویے اکثر ملا کے دیکھے ہیں ...
میں غم کی کہانی سناتا رہوں گا ...
جگمگاتے ہوئے نگینوں نے ...
ہم زیست عین مرضیٔ یزداں نہ کر سکے ...