اگر تمہارے نام کی نہیں رہی ...
وہ زندگی کہ جس میں اذیت نہیں کوئی ...
اپنے جنوں کی تازہ حکایت ہے آج بھی ...
ذرا وہ خاک میں ملنے نہ دے خون شہیداں کو
زندگی کی بہار ہو جاؤ ...
زخم دل پر گلاب رکھا ہے ...
تجھے بھلانے کی اب جستجو نہیں کرتے ...
مجھ پہ وہ کچھ اس قدر چھاتا رہا ...
لکھا تھا نام جو اک شام کورے کاغذ پر ...
کب دیا یہ جلا ہوا کے لیے ...
جن کے ہاتھوں میں سر ہمارے ہیں ...
ہجرتوں کے گلاب دیکھے ہیں ...
بھلا چکا ہے زمانہ مرے فسانے کو ...
بہت قریب تھا پر مہرباں نہ تھا میرا ...
نہیں ہوتا کبھی اچھا ہمارا ...
محبت کو پرائی کر رہی ہو ...
خبر بھی ہے کہاں پر آ گئے ہو ...
یہ کیسا شہر کا منظر دکھائی دیتا ہے ...
وہ بدن ماہتاب جیسا ہے ...
اس کے ہونٹوں پہ مرا نام جو آیا ہوگا ...