کب دیا یہ جلا ہوا کے لیے

By sabeensaifFebruary 28, 2024
کب دیا یہ جلا ہوا کے لیے
عشق ہوتا نہیں فنا کے لیے
یاد مجھ کو نہ آ خدا کی طرح
اب مجھے بخش دے خدا کے لیے


آج دیکھا شہاب ثاقب تو
ہاتھ پھیلا دیے دعا کے لیے
میں نے پوچھا کہ زندگی کیوں ہے
ہنس کے بولا تری سزا کے لیے


ایک لمحے کو جو اماں دے دے
کتنا ترسے ہیں اس ردا کے لیے
دل سے کوئی صدا نہیں ابھری
جب سے بچھڑا ہے وہ سدا کے لیے


مار دیتی ہے جان سے ہم کو
پھر بھی مرتے ہیں ہم انا کے لیے
اپنے خوں سے دیا جلایا ہے
میں نے اس سر پھری ہوا کے لیے


روح کو بھی اسیر کر ڈالا
ہم نے صیاد کی رضا کے لیے
کون ان کو مٹا سکا ہے ثبینؔ
مٹ گئے ہیں جو کربلا کے لیے


64441 viewsghazalUrdu