وہ بدن ماہتاب جیسا ہے

By rizwan-aliFebruary 28, 2024
وہ بدن ماہتاب جیسا ہے
روشنی کے نصاب جیسا ہے
چاند کو ڈھک رہا ہے جو بادل
تیرے رخ پر نقاب جیسا ہے


مجھ کو پڑھنے کی تو اجازت دے
تیرا چہرہ کتاب جیسا ہے
پی لیا جام کس کی آنکھوں سے
نشہ مجھ پر شراب جیسا ہے


میں یہ کس شہر میں چلا آیا
لمحہ لمحہ عذاب جیسا ہے
روئے جاناں تو بے مثالی ہے
کیسے کہہ دوں گلاب جیسا ہے


ذکر ماضی کا کیا کریں رضوانؔ
ذہن میں اب یہ خواب جیسا ہے
38433 viewsghazalUrdu