گھٹن ہے اور عجب بے بسی ہوا میں ہے
By rashid-ansarFebruary 28, 2024
گھٹن ہے اور عجب بے بسی ہوا میں ہے
یقین جان بڑی تشنگی ہوا میں ہے
یہ کون ہو گیا رخصت ملے بغیر ہمیں
ہے سوگوار نگر خامشی ہوا میں ہے
ہر ایک پھول گھٹن کا شکار لگتا ہے
ذرا پتہ تو کرو کیا کمی ہوا میں ہے
تمہارے شہر کے سب لوگ بد مزاج ہوئے
کرخت لہجے ہیں اور بے رخی ہوا میں ہے
فلک سے آنے لگیں قہقہوں کی آوازیں
گمان ہونے لگا زندگی ہوا میں ہے
لکھا ہے نام ترا رات کی ہتھیلی پر
جہاں مہکنے لگا ہے خوشی ہوا میں ہے
تری غزل میں جو احساس ہے نئے پن کا
یہ اس کا فیض ہے یا تازگی ہوا میں ہے
یقین جان بڑی تشنگی ہوا میں ہے
یہ کون ہو گیا رخصت ملے بغیر ہمیں
ہے سوگوار نگر خامشی ہوا میں ہے
ہر ایک پھول گھٹن کا شکار لگتا ہے
ذرا پتہ تو کرو کیا کمی ہوا میں ہے
تمہارے شہر کے سب لوگ بد مزاج ہوئے
کرخت لہجے ہیں اور بے رخی ہوا میں ہے
فلک سے آنے لگیں قہقہوں کی آوازیں
گمان ہونے لگا زندگی ہوا میں ہے
لکھا ہے نام ترا رات کی ہتھیلی پر
جہاں مہکنے لگا ہے خوشی ہوا میں ہے
تری غزل میں جو احساس ہے نئے پن کا
یہ اس کا فیض ہے یا تازگی ہوا میں ہے
25392 viewsghazal • Urdu