چھوٹ رہا ہے گھر جیسا کچھ ...
چاند کل ایسا لگا تاروں کے بیچ ...
بچھڑ کر ہم اسی کے حق میں اچھا کر رہے تھے ...
بیچ بچاؤ کرنے باہر جایا جائے ...
بستی بری نہیں یہ ہمارے قیاس میں ...
برابر جسم کو دھمکا رہی ہے ...
بات یہ ذہن میں اس کے بھی تو آ سکتی ہے ...
بات رکھنے کا موقع دیا جائے گا ...
بات کرتے تھے اور پتھر تھے ...
اصل صورت چھپانے والے برے ...
ایسا کرتے ہیں صبح ٹالتے ہیں ...
اچھی اچھی باتیں دنیاداری والی ...
اچانک مل گئیں روحیں ہماری کل ...
اچانک ہو گئیں نکتے کی باتیں ...
آپ کو ایسے نہ کھونا تھا ہمیں ...
آج اکٹھا کر کے عشق کے ماروں کو ...
کیا کوئی دن بچا ہے نہ بندہ حساب دے ...
خود کو سوچا ہے کہ کچھ تنہا کروں ...
کہو تم یہ ذہنی اذیت نہیں ہے ...
آنکھ سے جو نمی نہیں جاتی ...