اتنا تنہائی سے گھبرانے لگے ہیں ...
اتنا ہم گھبرا گئے خود سے ...
اتنا اپنا ہو جاتا ہوں ...
عشق پہلی مری برائی تھی ...
عشق کو جتنا بھی سمجھا ہم نے ...
ہشیاری کا مول چکاتا رہتا ہوں ...
حقوق جب یاد آئے اپنے ...
ہوس میں مبتلا ہم کو ملا تھا ...
حریف مجھ سا اگر ہو تو کچھ خسارہ نہیں ...
حقیقت کھل نہیں پائی ابھی تک ...
ہے اب وہ بھی دست خریدار میں ...
گھروں میں چھپ کے نہ بیٹھو کہ رت سہانی ہے ...
فسردہ کر گیا اگلے زمانوں سے گزرنا ...
فرق تو پڑنا تھا یاری میں ...
فریب آگہی میں جان دے دی ...
ایک ایسا بھی وقت آتا ہے ...
دل میں کچھ ہو تو مسکرائیے گا ...
در قفس تک جانے دینا ...
دفتر میں بے کار کی باتیں کرتے رہیے ...
چپ ہیں سب موت کے سوال کے بعد ...