تیرے بدن کے لمس کا منظر بکھر گیا ...
صیاد کہہ رہا ہے رہائی نہ دیں گے ہم ...
سر تو نیزے پہ ان کے اچھالے گئے ...
سب فیصلے خلاف ہمارے گئے تو کیا ...
موم کا یہ جسم میرا دھوپ کی یلغار ہے ...
میری انکھوں کا سکوں دل کے اجالے میرے ...
لکھ کے تحریر محبت کی مٹائی اس نے ...
جس کی خاطر مری دینداری گئی ...
ہمت تمام تم سے جٹائی نہیں گئی ...
حرف حرف چمکا کر لفظ لفظ مہکا کر ...
دل کی دیوار پہ محراب بنا کر رکھتا ...
رنگ بجھنے لگے ہیں آنکھوں میں ...
سفر میں بھیڑ بہت ہے پتہ نہیں چلتا ...
گئی ہو جب سے ...
آکاش رہا چھپر میرا ...
میری آنکھیں ...
بہت پہلے جو نفرت جاگ اٹھی تھی ...
میں کہ بچپن میں ایک دن گھر سے ...
شوروموں سے ...
وہ جینے کی پہلی خواہش ...