بچھڑ کر ہم اسی کے حق میں اچھا کر رہے تھے

By shariq-kaifiFebruary 29, 2024
بچھڑ کر ہم اسی کے حق میں اچھا کر رہے تھے
مگر اس کو یہ لگتا تھا کہ دھوکہ کر رہے تھے
ذرا سا فاصلہ بھی اک مصیبت ہو گیا تھا
کہ ہم ہر موڑ پر آرام اتنا کر رہے تھے


محبت کو ابھی رونے کا وقت آیا نہیں تھا
ابھی ہم دوسری باتوں پہ جھگڑا کر رہے تھے
خدا جانے یہ نیکی تھی کہ خود غرضی ہماری
بدل اپنا عبادت میں مہیا کر رہے تھے


جہاں والوں کو تم اپنی صفائی میں نہ لانا
جہاں والے تو مجھ پر بھی بھروسہ کر رہے تھے
بڑی سنجیدگی کے ساتھ اسٹیشن پہ اترے
وہی لڑکے جو رستہ بھر تماشہ کر رہے تھے


جہاں پر حکمرانی صرف تیرے درد کی تھی
وہاں اب دوسرے غم بھی علاقہ کر رہے تھے
کئی بیمار اتنے بے تکلف تھے کہ شارقؔ
ہمیں بھی ساتھ چلنے کا اشارہ کر رہے تھے


14204 viewsghazalUrdu