دکھا کر مجھ کو چشم مست مستانہ بنا ڈالا ...
چبھے جب دل میں خار عشق پھر کمتر نکلتے ہیں ...
وصل بھرپور رہا ہجر بھی بھرپور بنا ...
پرخلوص جذبوں کا دان تو نہیں لیتے ...
ملے جو تم سے ملا اک سرور کیا سمجھے ...
مرض کی جن سے توقع ہے وہ دوا دیں گے ...
کسی کے ذکر سے دائم ہماری زندگانی ہے ...
خود کو کیا خون رلاؤ گے بتاؤ تو سہی ...
ہم کو ہوا تھا عشق جوانی میں مختصر ...
ہماری آنکھ اداسی سے لال کب تک ہو ...
دیکھنے کو پھول میں مشغول ہے ...
دم بدم میرا طرف دار ہوا کرتا تھا ...
بس فراق یار میں جاری سخن آرائیاں ...
اپنے دل پر ہی نہیں ہے مجھے قابو بولو ...
یہ تسلی یہ دلاسہ یہ سہارا ناٹک ...
الجھی الجھی زلف کے خم ناچتے ...
مجھے تھا تجھ سے کبھی پیار جھوٹ بولا تھا ...
کچلا کیے ہیں کتنے ہی لشکر زمین کو ...
کوئی قیمت لگائے سائے کی ...
کوئی مارے تو مار ڈالے مجھے ...