کہوں کس سے کہ دھندلائے ہوئے ہیں ...
جب سے نصیب میرا ٹھکانے پہ آ گیا ...
حضور کھیل ہے یا پھر ڈرامہ بازی ہے ...
ہے نظر میں جو بال شیشے کا ...
غم کے بادل اگر چھٹے ہوئے تھے ...
ایک ہی منظر تو بہتر تھا ہمیں ...
دیکھ لے خود ہی کوئی لوٹ کے جاتے ہوئے ہاتھ ...
بات آگے بڑھا طریقے سے ...
عدو دامن پسارے مل رہے ہیں ...
یوں غموں سے نجات پاؤں کیا ...
محبت کی یہ ہوتی ہے سزا کیا ...
کی بہت کوششیں مگر نہ ہوئی ...
عشق ہے ہم سے تو یہ وہم گماں کیسے ہیں ...
انسانیت کا آج علم دار کون ہے ...
حوصلے جن کے بھی بلند نہیں ...
ایک حسرت جو دل میں دبی رہ گئی ...
یوں ہراساں اس کا دل ہے دوستوں کے درمیاں ...
اک نئی تہذیب کا آغاز ہے اردو غزل ...
دل ربا مجھ کو تری مجبوریاں اچھی لگیں ...
ذرے ذرے میں نہاں ایک نگیں تھا پہلے ...