کہوں کس سے کہ دھندلائے ہوئے ہیں

By aarif-nazeerJuly 12, 2024
کہوں کس سے کہ دھندلائے ہوئے ہیں
جو منظر آنکھ پر چھائے ہوئے ہیں
کنارے سے کنارے تک ہے وحشت
ندی کے راگ گھبرائے ہوئے ہیں


کچھ ایسے خواب جن سے ڈر رہا ہوں
گزشتہ رات سے آئے ہوئے ہیں
کبھی تو بھی ہماری سمت آتا
تری جانب تو ہم آئے ہوئے ہیں


خلوص دل سہی تیرا تبسم
مگر ہم چوٹ تو کھائے ہوئے ہیں
نجانے رات کون آئے گا چھت پر
ستارے شام سے آئے ہوئے ہیں


مقدس ہم صحیفے ہیں جو شاید
ہزاروں بار جھٹلائے ہوئے ہیں
ہمارا ذکر ہو تو جان لیجو
تری محفل میں ہم آئے ہوئے ہیں


بڑے دانا ہیں جی دشمن ہمارے
مگر ضد پر ابھی آئے ہوئے ہیں
رقیبوں پر بھی ہے نظر عنایت
کرم ہم پر بھی فرمائے ہوئے ہیں


ہمارا بن کے تو بھی تو رہا تھا
ترے ہم بھی کبھی ہائے ہوئے ہیں
سکون و امن وقتی ہی رہا ہے
مسلسل خوف کے سائے ہوئے ہیں


دماغی عارضہ لاحق ہے تم کو
کئی دل ہیں جو گھبرائے ہوئے ہیں
ہمیں عارفؔ گلوں سے نسبتیں تھیں
مگر کانٹوں میں گنوائے ہوئے ہیں


16268 viewsghazalUrdu