مدتوں بعد کہیں ایسی گھٹا چھائی تھی ...
ملے تو کچھ بات بھی کرو گے ...
محور مجھے بنا سکتے ہو ...
میہماں گھر میں بھرے رہے ...
مضحکہ خیز یہ کردار ہوا جاتا ہے ...
موت کی روشنی میں سنوارا اسے ...
موت ادھر جب بھی آتی ہے ...
منظر پورا کرنے والا کوئی نہیں ...
میں پہنچا تو یار نہ پہنچا ...
لوگ جو آگے سے آگے بولتے ہیں ...
لوٹ آئے ہیں جانے والے ...
لگی جو دیر مجھے آپ کو منانے میں ...
کچھ یوں بھی مرا گھر سے نکلنا نہیں ہوتا ...
کچھ تو احباب ذرا دل کے بڑے ہیں میرے ...
کچھ ساغر چھلکانے تک محدود رہا ...
کچھ بھی منزل سے نہیں لائے ہم ...
کوئی خوش تھا تو کوئی رو رہا تھا ...
کسی سے خفا میں ہوا ہی نہیں ...
کس نے سوچا تھا کہ اس حد تک بھی جا سکتا ہوں میں ...
خدا سے مشورے کے بعد کیا ہوا ...