قمیض الٹی پہن لیتا ہوں وحشت میں ...
محبت فیکس ہو سکتی تو کر دیتا ...
وہ مرا آشنا نہیں ہوتا ...
وہی دنیا وہی سب پہلے جیسا ...
تجھے ڈھونڈھتا ہوں سمندر کنارے ...
شہر تو ملتے ہیں آباد کہاں ملتے ہیں ...
کل تمہیں یاد کرتا رہا دوستو ...
ایک جیسے ہیں دنیا میں کب آدمی ...
چند برتن ہیں چارپائی ہے ...
اگر ہو غم کی گہرائی سے ملنا ...
ممکن ہے گر تو سارے کا سارا اٹھا کے بھاگ ...
لوگ اس دشت میں معروف ہوئے کم کم سے ...
کیا اور کیوں یہ کیسے ہوا جب سمجھ لیا ...
کسی لے میں کسی بھی تال میں ہم ...
کہنے کو تو ملبوس میں وہ جسم نہاں تھا ...
جس سے بنتی نہ تھی کبھی اپنی ...
جانے کس خاک سے گندھے ہوئے ہیں ...
ہوئی ہر آنکھ خالی آنسوؤں سے ...
گزشتہ کچھ دنوں سے بیکلی ہے ...
چاک پر گریہ کناں ایسے مری خاک ہوئی ...