مرے دیے ترا نعم البدل رہا ہوں میں ...
مرے آگے وہ آ کر چپ کھڑا تھا ...
لفافے میں ایک کورا کاغذ پڑا ہوا تھا ...
کسی نے پہلے شکایت کی انتہا کر دی ...
کیجے مرا یقین کہا نا نہیں ہوں میں ...
کہہ چکا ہوں میں کئی بار نہیں مانتا میں ...
جڑ جاتے توڑے جاتے اگر درمیاں سے ہم ...
جیتے ہوئے گھبراتے ہیں یہ لوگ عجب ہیں ...
ہر آدمی نے روپ ہے دھارا فقیر کا ...
گر رہا ہوں سنبھل رہا ہوں میں ...
دنیا کا میں غلام ابھی تک نہیں ہوا ...
دل جانب یزید ترا خم نہ ہو کہیں ...
دیر تک آج ترے بارے میں سوچا ہم نے ...
چوکھٹ پہ کہ رستے پہ رکھو میری بلا سے ...
بیٹھے بیٹھے میں گلستان بھی ہو جاتا ہوں ...
بچپن ہے ایک خواب جوانی فریب ہے ...
عجیب طرح کا موسم رہا ہے آنکھوں میں ...
آنکھ ان کی تو کچھ اور ہی کہتی ہے زباں اور ...
گاتھا پڑھ کر آتش دھونکی گنگا سے اشنان ...
کل بازار میں بھیا شافی ...