سیاہی میں تو سایہ ڈوبتا ہے ...
سیاہی میں نہا کر سرخ رو ہیں ...
شاہ زماں نے بھیج دیا ریشمی لباس ...
سارے خوش فہم پئے وصل جئے جاتے ہیں ...
سارے چقماق بدن آئے تھا تیاری سے ...
ثانی نہیں تھا اس کا کوئی بانکپن میں رات ...
سہمے گنبد اور کبوتر رات بھر ...
سبھی کو مسکرا کر مار ڈالا ...
سب پھول اٹھا لائے تھے جس دام میں آئے ...
راستے بھر یہی سوچتے آئے ہیں ...
قریب آنے لگے ہیں دور کے دن ...
قریب آ کہ ارادے لہو کے دیکھتے ہیں ...
پوچھتا ہے مجھ سے کیا ہو جاؤں میں ...
پتہ سب ہے ستائش اور ہوگی ...
نام سے اس کے پکاروں خود کو ...
نہیں کہ تب کوئی کاغذ قلم نہ ہوتا تھا ...
نہ سر نہ تال نہ یہ ساز سے ہی روشن ہیں ...
مجھ عشق کو ہوس بھری نظریں عطا کرے ...
مدت پہ ملی ٹوٹ کے برسات ہماری ...
منصب سے محبت کی سبک دوش ہوا میں ...