معبدوں کی بھیڑ میں بجھتے یہ انسانی چراغ ...
لالچ کچھ اور دو کہ فقط دید کیا کریں ...
لاکھ کوئی چیخے چلائے شور اندر کب آتا ہے ...
کیوں ادھر ہی نکل پڑا جائے ...
کیوں بھلا آدھا ادھورا عشق کیجے ...
کچھ کو دکان کچھ کو خریدار کر چکے ...
کچھ ہمیں چھوٹ بھی مل جائے خرافات کی اب ...
خالی ہوا ہی تھا کہ کھنکنے لگا بدن ...
کون اس کو چاہتا میری طرح ...
کہیں سے ڈھونڈھ کر تو لاؤ مجھ کو ...
کبھی سوچا ہے کچھ اچھا برا کیا ...
جز خدا اور کوئی حامی و ناصر مل جائے ...
جنوں والے بالآخر شاہکاروں سے نکل آئے ...
جو تیرے ساتھ ذرا دیر تک رکا ہوتا ...
جسم مصلوب کا یک لخت نیا ہو جانا ...
جس کے آنے سے ہوا ہے دفعتاً پانی شراب ...
جھلک بھی مل نہ پائی زندگی کی ...
جلسہ نہیں جلوس نہیں شاعری نہیں ...
جب پھیر کر نگاہ ہر اپنا پرایا جائے ...
اتنا تیار تو مرنے کو نہیں ہے کوئی ...