مسئلے حل نہیں ہوئے میرے ...
خود کو کس طرح تم سنبھالو گے ...
جس طرف کوئی نہ آ پایا ادھر آیا تو ...
جب اس نے چھوڑنے کی دی تھی دھمکی بانہوں میں ...
جانا ہے آج آنا ہے کل کچھ تو بول جا ...
حسرت سے قمر تکتا تھا خورشید مبیں تھا ...
غصے میں ایک شخص کی محفل گیا ہے دل ...
ہم اعتبار جنوں بار بار کرتے رہے ...
چمکتی ہوئی دھوپ تیزی سے نکلی ...
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا ...
تجھے خبر نہیں اے بے وفا ہزاروں نے ...
سبھی پڑھتے رہے چہرہ ہمارا ...
مسکرا کر گزر گیا کوئی ...
گل بھی ہو سکتا ہے اور جام بھی ہو سکتا ہے ...
اپنے دل سے مری یادوں کو ہٹانے والا ...
رکا سا تھا کوئی منظر مگر ٹھہرا نہیں تھا ...
خواہش کا بوجھ رکھ لیا دل کی اساس پر ...
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئنہ ہو جاؤں گا ...
ان سے کہتا ہوں یاد کر مجھ کو ...
ان کے سینہ پہ رکھ کے سر ہم نے ...