اس کا چہرہ ہے کہ بھولا ہوا منظر جیسے

By salim-saleemFebruary 28, 2024
اس کا چہرہ ہے کہ بھولا ہوا منظر جیسے
میری آنکھوں میں یہ آنسو بھی ہیں پتھر جیسے
ایک سایہ مرے قدموں سے لپٹ جاتا ہے
شام ہوتے ہی مری چھت سے اتر کر جیسے


ساحل دل پہ پٹختا ہے بہت سر اپنا
رات بھر تیرے خیالوں کا سمندر جیسے
یہ الگ بات کہ دیکھا نہیں اس کو اب تک
پھر بھی رہتا ہے مرے ساتھ وہ اکثر جیسے


گھنٹیاں بجتی ہیں اب ذہن کے دروازے پر
مسجدیں ٹوٹ رہی ہوں مرے اندر جیسے
زندگی قید ہوں میں اپنے بدن کے اندر
اور بلاتا ہے کوئی جسم سے باہر جیسے


15492 viewsghazalUrdu