کسی کے دکھ کو ضرورت تھی پردہ پوشی کی
By sajid-raheemFebruary 28, 2024
کسی کے دکھ کو ضرورت تھی پردہ پوشی کی
سو ہم نے سیکھ لی آخر زباں خموشی کی
گلاب جذبوں نے آخر اسے بھی گھیر لیا
کل اس کے ہاتھ میں دیکھی کتاب نوشی کی
میں ایسے شہر گریزاں میں جی رہا ہوں جہاں
نظر ملانا علامت ہے گرم جوشی کی
دکھوں سے کھیلتا رہتا ہے رات دن پاگل
دل تباہ کو عادت ہے عیش کوشی کی
ہمارے واسطے دریا نہ اپنا رخ موڑے
ہماری پیاس کو لت ہے سراب نوشی کی
کہیں لٹیرے سزائیں بھی کاٹتے ہوں گے
ہمارے ہاں تو روایت ہے تاج پوشی کی
ازل سے جبر کو ملتے رہے قصیدہ گو
نئی نہیں ہے کہانی قلم فروشی کی
سو ہم نے سیکھ لی آخر زباں خموشی کی
گلاب جذبوں نے آخر اسے بھی گھیر لیا
کل اس کے ہاتھ میں دیکھی کتاب نوشی کی
میں ایسے شہر گریزاں میں جی رہا ہوں جہاں
نظر ملانا علامت ہے گرم جوشی کی
دکھوں سے کھیلتا رہتا ہے رات دن پاگل
دل تباہ کو عادت ہے عیش کوشی کی
ہمارے واسطے دریا نہ اپنا رخ موڑے
ہماری پیاس کو لت ہے سراب نوشی کی
کہیں لٹیرے سزائیں بھی کاٹتے ہوں گے
ہمارے ہاں تو روایت ہے تاج پوشی کی
ازل سے جبر کو ملتے رہے قصیدہ گو
نئی نہیں ہے کہانی قلم فروشی کی
46646 viewsghazal • Urdu