خود کو اتنا بھی مت بچایا کر

By shakeel-azmiFebruary 29, 2024
خود کو اتنا بھی مت بچایا کر
بارشیں ہوں تو بھیگ جایا کر
کام لے کچھ حسین ہونٹھوں سے
باتوں باتوں میں مسکرایا کر


درد ہیرا ہے درد موتی ہے
درد آنکھوں سے مت بہایا کر
چاند لا کر کوئی نہیں دے گا
اپنے چہرے سے جگمگایا کر


دھوپ مایوس لوٹ جاتی ہے
چھت پہ کپڑے سکھانے آیا کر
گھر سے باہر نکل ہواؤں میں
زلف سے خوشبوئیں اڑایا کر


کوئی تصویر کوئی افسانا
کچھ نہ کچھ روز ہی بنایا کر
کون کہتا ہے دل ملانے کو
کم سے کم ہاتھ تو ملایا کر


12824 viewsghazalUrdu