جو رنجشیں تھیں انہیں برقرار رہنے دیا

By shakeel-azmiFebruary 29, 2024
جو رنجشیں تھیں انہیں برقرار رہنے دیا
گلے ملے بھی تو دل میں غبار رہنے دیا
نئے مکان کی تعمیر کر تو لی ہم نے
پرانی چھت کو مگر برقرار رہنے دیا


نہ کوئی خواب دکھایا نہ غم دیا اس کو
بس اس کی آنکھوں میں اک انتظار رہنے دیا
اسے بھلا بھی دیا یاد بھی رکھا اس کو
نشہ اتار دیا اور خمار رہنے دیا


گلی کے موڑ سے آواز دے کے لوٹ آئے
تمام رات اسے بے قرار رہنے دیا
وہ ہم کو توڑ کے جاتا تو بھول جاتے اسے
نکلنے والے نے لیکن حصار رہنے دیا


نہ جانے کیا تھا کہ اس سے فریب کھا کر بھی
اسی کے ہاتھ میں سب اختیار رہنے دیا
یہ سرد رت بھی ہمیں خود کو تاپتے گزری
غزل کو ہم نے مگر سایہ دار رہنے دیا


بڑا گمان تھا اس کو ہماری چاہت کا
شکیلؔ ہم نے بھی اس کا خمار رہنے دیا
71523 viewsghazalUrdu