جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں

By shariq-kaifiFebruary 29, 2024
جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں
اس کی گلیوں سے گزرتے ہوئے گھر جاتے ہیں
جو ضروری تھا وہی بھولنا ہم بھول گئے
راستہ بند اگر ہو تو کدھر جاتے ہیں


اور تو خوف نہیں ہم کو کسی کا لیکن
کوئی اپنا سا نظر آئے تو ڈر جاتے ہیں
کسی طوفان کی افواہ اڑاتا ہے کوئی
اور ہم ڈر کے کنارے پہ اتر جاتے ہیں


جان دے کر بھی ترا وعدہ نبھانے والے
تیرے حق میں کوئی اچھا نہیں کر جاتے ہیں
سب کے کہنے پہ بہت حوصلہ کرتے ہیں تو ہم
حد سے حد اس کے برابر سے گزر جاتے ہیں


ٹھیک سے زخم کا اندازہ کیا ہے کس نے
بس سنا تھا کہ بچھڑتے ہیں تو مر جاتے ہیں
ہم بچھڑ کر بھی جئیں گے یہ تصور ہی نہ تھا
کیا خبر تھی کہ یہ لمحہ بھی گزر جاتے ہیں


راہ چلتے جو کچھ اک پل کو نظر آئے تھے
قربتیں ہوں تو وہی رنگ ٹھہر جاتے ہیں
جانے کیوں سوچتا رہتا ہوں مسلسل جس کو
ذہن سے اس کے خد و خال اتر جاتے ہیں


اب تو ہر زخم نیا ایک نئی راحت ہے
ایک بار آ کے کہیں ایسے ہنر جاتے ہیں
55945 viewsghazalUrdu