ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے

By sarmad-sahbaiFebruary 29, 2024
ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے
بیٹھے رہو امید یوںہی بے سبب لگائے
جو قرض ہجر سونپ گیا عمر کے عوض
شرط وصال اس سے کہیں بے طلب لگائے


کس جیب احتیاط میں رکھیں متاع دل
بیٹھا نہیں کہاں پہ وہ رہزن نقب لگائے
کھلتا نہیں ہے عقدہ شب انتظار کا
یاروں نے داؤ پیچ یہاں سب کے سب لگائے


چاروں طرف ہے آگ مگر درمیان شہر
بیٹھا ہے یار مجلس جشن طرب لگائے
بازار عشق سرد پڑا نذر جاں کے بعد
اب کوئی نقد نام یا نقد نسب لگائے


پھرتے ہیں لے کے بنت فصاحت کو میرزاؔ
اپنے تئیں خدائے سخن کا لقب لگائے
اس خوانچۂ سخن پہ تو سرمدؔ گزر نہیں
اس سے کہیں ہمیں وہ کسی اور ڈھب لگائے


58156 viewsghazalUrdu